تحریر: محمد جواد حبیب کرگلی
فکر کی حکومت :
جب ہم کائنات میں موجود مخلوقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سارے موجودات میں صرف انسان ایسا موجود ہے جو پہلے سوچتا(Thinks) ہے اس کے بعد انتخاب کرتا (Choices)ہے اور اسکے بعد عمل(Acts) کرتا ہے ۔یہ انسان کی خصوصیات ہیں جس کی بنا پر وہ دوسرے ساری مخلوقات سے ممتاز ہے انہی خصوصیات میں ایک "فکر کرنا" ہے ۔ فکر وہ شی ہےجو ہرانسان کی پر حکومت کرتی ہے یعنی اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ ہم انسانوں کے اوپر کس چیز کی حکومت ہے ؟ تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم انسانوں پر ہماری فکر کی حکومت ہے یعنی جیسی ہماری فکر ہوگی ویسے ہمارا انتخاب اور عمل ہوگا۔اور فکر سے مراد انسان کا عقید ہ (Ideology) ہے انسان جیسا عقیدہ رکھے گا ویسے عمل کرے گا۔انسان کا کوئی بھی عمل عقیدہ سے خالی نہیں ہوگا لیکن یہ امکان ہے کہ اسکا عقیدہ خراب ہو جس کے بنا پر عمل بھی خراب ہوجاے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ انسان بغیر عقیدہ کے کوئی عمل کرتا ہے ۔
انسان کے اعمال کے اسباب:
اس بات کی وضاحت کے لئے اس مثال پر دقت کریں مثلاایک انسان ہے جو دوسروں پر ظلم کرتا ہے اور دوسرا انسان ہے جو مظلوموں سے دفاع کرتا ہے اور تیسرا انسان ہے جو خاموشی اختیار کرتا ہے نہ ظلم کرتا ہے اور نہ مظلوم کی حمایت کرتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ پہلا انسان ظلم کیوں کرتا ہے ؟ اور دوسرا انسان مظلوم کی دفاع کیوں کرتا ہے ؟ اور تیسرا انسان خاموشی کیوں اختیار کرتا ہے ؟ ان سارے انسانوں کی الگ الگ اعمال کی وجہ کیا ہے ؟ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی بنا پر ان تین انسانوں کے اعمال الگ الگ نظر آتے ہیں؟
ان تینوں انسانوں کےاعمال کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک انکی فکر و عقیدہ ہے جس کے بنا پر وہ عمل کرتا ہے گزشتہ مثال میں وہ انسان جو ظلم کررہا تھا اسکی وجہ عقیدہ کی کمزوری ہے اس نے اپنی ذاتی مفاد اور دنیوی فایدہ کے لئے دوسروں پر ظلم کیا ہے وہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس سے اسکا کوئی فایدہ ہوگا درحقیقت وہ صحیح عقیدہ سے دوری اور غلط عقیدہ کے انتخاب کی بناپر یہ عمل کر رہا ہوتا ہے لیکن جب اس کو متوجہ کیا جاتاہے تب وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے اور بھر سے صحیح عقیدہ کے مطابق عمل کرتا ہے ۔اسی طرح دوسرا انسان جو مظلوموں کی حمایت کرتا ہے اور دفاع کرتا ہے اسکی وجہ بھی فکر و عقیدہے وہ انسان اس لئے دفاع کرتا ہے چونکہ اس کے اندر فدکاری ، ایثاراور قربانی کا جذبہ ہے جو دین کا حکم ہے ۔اور یہی صحیح عقیدہ کی علامت بھی ہے جب انسان کا عقیدہ صحیح ہوگا وہ کسی پر نہ ظلم کرے گا اور نہ ظلم کرنے دے گا بلکہ وہ حساس،اور باغیرت ہوگا کسی بھی برائی یا اچھائی پر خاموش نہیں رہے گا بلکہ نیکی کے ساتھ دے گا اور برائی کو روکے گا ہی ایک مومن اور دنیدار کی پہچان ہے ۔تیسر ا انسان جو خاموشی اختیار کرتا ہے نہ وہ ظلم کرتا ہے اور نہ مظلوم سے فاع کرتا ہے وہ بھی ضعیف العقیدہ کی بنا پر ہے یعنی وہ مادی ، دنیوی اور ذاتی مفادات کے لئے خاموشی اختیار کرتا ہے اور ایسا انسان کبھی مومن ، دیندار نہیں ہوسکتا ہے اس لئے دین ظلم کرنے سے منع کرتا ہے اور مظلوم کی حمایت کا حکم دیتا ہے ۔ خلاصہ ان تینوں انسانوں کی مختلف اعمال اور افعال کی وجہ انکی فکر اور عقیدہ ہے اس عقیدہ اور فکر کو آج کل کے محققین آیڈیولوجی (Ideology)کہتے ہیں۔
ایڈیولوجی اور انسان :
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کے اوپرفکر و عقیدہ یا(Ideology)کی حکومت ہے انسان کا جیسا عقیدہ ہوگا ویسے اس کا عمل ہوگا ۔ا ٓیڈیولوجی سے مراد کیا ہے آیڈیولوجی مختلف معانی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن عصر حاضر میں آیڈیوجی کو کسی خاص مکتب فکر کے عقاید و افکار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسے اسلامی آیڈیولوجی ، ھند و آیڈیولوجی ، سیک آیڈیولوجی ، بدوہشت آیڈیولوجی ، مادی آیڈیولوجی ، مارکس آیڈیولوجی ، لبرال آیڈیولوجی اور کمیونزم آیڈیولوجی وغیرہ کا آج کل کے لٹریچرس(Literature) میں زیادہ استعمال ہوتا ہے اس بنا پر جیسا انسان کا آیڈیولوجی ہوگا ویسے زندگی کرے گا اور اس کے تمام افعال اور اعمال اس کے ایڈیولوجی کے مطابق ہونگے اس بنا پر انسان کی زندگی میں عقیدہ اور آیڈیولوجی کا کردار سب سے زیادہ ہے۔اس دنیا میں ایک بھی شخص نہیں ہوگا جو کسی عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتا ہو بلکہ وہ کسی نا کسی آیڈیولوجی کی پیروری کررہا ہوگا اب کونسا آیڈیولوجی صحیح ہے اور کونسا غلط یہ الگ بحث ہے ۔
ورلڈ ویو (world view):
جب یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان پر اسکی فکر اور عقیدہ کی حکومت ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان کی ورلڈوید(world view) جسکو فارسی زبان میں جہان شناسی کہا جاتا ہے وہ بھی اس کے عقیدہ کے مطابق ہوگا ۔جہان شناسی(world view) کو انسان کا عقیدہ وجود میں لاتا ہے ۔یعنی وہ دنیا کو کسی نظر سے دیکھتا ہے ؟ اس کی نظر میں کائنات کیا ہے ؟ کس نے اور کب وجود میں آئی ہے ؟ ان سارے سوالوں کے جواب کو جاننا ورلڈ وید ہے اس بنا پر ایک مسلمان کی ورلڈ ویو (world view) ایک مادہ پرست کی ورلڈوید (world view) سے الگ ہوگا اسی طرح ایک ھند کی جہان شناسی (world view) ایک لبرال کی جہان شناسی (world view) سے بہت مختلف ہوگا ۔اس لئے ہم اس کائنات میں بہت سارے مکاتب فکر پاتے ہیں جو انسانوں کو اپنی جانب دعوت دیتے ہیں اور یہ ادعا کرتے ہیں ان کے پاس موجود عقاید اور افکار سب سے بہترین ہے اور اس میں انسانوں کو سعادت مند بنانے کی صلاحت موجود ہے ۔اس لئے اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ سب کی باتوں سنواور بہتر کی پیروی کرو۔یعنی ہمیں سارے مکاتب فکر کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کےبعد ایک کو انتخاب کرنا ہوگا اور اسکے مطابق عمل کرنا ہوگا۔
آیڈیولوجی کا مقصد:
کسی بھی مکاتب فکر کو ماننے کا ہدف اور مقصد کیا ہوتا ہے ؟ اس دنیا کے سارے ادیا ن اور مکاتب فکر اس فطری سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کہاں سے آیا ہے ؟ اس دنیا میں اس کی ذمہ داری کیا ہے ؟ او ر انسان کا انجام کیا ہوگا؟یہ سوالات وہ ہیں جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور ہر دین کے علماء، پیشوا اور دانشور انکے جوابات کو دینے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں رحم اللہ امرء علم من این ،فی این و الی این؟ خداوند رحمت فرماے اس شخص پر جو یہ جانتا ہو کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کدھر ہے اور کہاں جاناہے ؟ جب ہم دنیا کے مادی مکاتب فکر سے ان سوالوں کے وجواب پوچھتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ دنیا ایک اتفاق سے خودبخود وجود میں آئی ہے اس کا کوئی خالق نہیں ہے اور صرف دنیوی زندگی اصل زندگی ہے اور اخروی زندگی کا انکار کرتے ہیں یعنی ان کے پاس کہاں سے آیا اور کدھر جانا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے لیکن دینداروں کے پاس اسکا جواب ہے بالخصوص اسلام کہتا ہے :انا للہ و انا الیہ راجعون " ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور خدا کی جانب واپس جانا ہے یعنی ہمارا اور اس کائنات کا خالق ہے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اس دنیا میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کریں اور یہ ایمان رکھے کہ دنیوی زندگی ،اخری زندگی کے لئے مقدمہ ہے دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزا ہے انسان دنیا میں عمل کرے گا اور آخرت میں اسکا پھل پاے گا اس بنا پر اسلامی روایتوں میں آیا الدنیا مزرعۃ الاخرۃ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس سےیہ معلوم ہوتا ہے کہ آیڈیولوجی انسان کو دنیا اورآخرت میں سعادتمند بنانا ہے اور ہی اسکا مقصد بھی ہے۔
نظریہ تصادف (The Big Bang Theory) :
جب ہم دنیا میں موجود مکاتب فکر کا مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ مغربی مکاتب فکر ہیں انکے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے یہ دنیا خودبخود وجود میں آئی ہےوہ نظریہ تصادف (The Big Bang Theory)کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس بنا پر اانکی نظرمیں دنیا کا کوئی ہدف و مقصد بھی نہیں ہے اور اس عقیدہ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں تو صرف دنیوی زندگی کو اصل اور اساس قرار دیتے ہیں اخروی زندگی کا انکار کرتے ہیں یعنی خالق کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی انکار کرتے ہیں ۔دنیوی زندگی کو سب کچھ مانتے ہیں قرآن ایسے لوگوں کی فکر کو یوں بیان کرتا ہے ان ھو الا حیاتنا الدنیا ، صرف دنیا کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں ۔
آج کی مغربی مکاتب فکر انسانوں کو اس جانب لے جارہی ہے جہاں خدا اور آخرت کا تصور بلکل نہیں ہے جب انسان کی زندگی سے خدا کا خوف اور آخرت کی فکر ختم ہوجاتی ہے تبھی انسان سرکشی اور طغانی پہ اترتا ہے جیسے کہ آج ہم کو دنیا کی حالت نظر آرہی ہے جسمیں انسان کو کسی دوسرے انسان پر اعتماد نہیں ہے اسی بناپر مایوسی ، پریشانی ، تنہائی اور لاپروایی نظر آتی ہے خدا ہم سب کو اس مرض مہلک سے نجات عطا فرمائے۔
لیکن اسلام کہتا ہے اس کائنات کا خالق ہے وہ علیم ،حکیم اور قادر ہے اس نے اس کائنات کو وجود میں بخشا ہے وہ اس کائنات کا حقیقی مالک ہے اور پالنے والا ہے اس عقیدہ کے حسا ب سے یہ کائنات بے ہدف نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ہے اور اس کائنات میں موجود ساری چیزوں کا ہدف اور مقصد ہے کوئی بیہودہ نہیں ہے انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کا بھی مقصد ہے وہ یہ کہ اپنے خالق کی فرمان بردار بنے اور آخرت پر ایمان رکھے اس لئے کہ دنیا کی زندگی آخرت کی زندگی کے لئے مقدمہ ہے دنیا میں کے تمام خیر و شر عمل کا نتیجہ آخرت میں انسان کو ملے گا اور دنیوی زندگی فانی زندگی ہے لیکن اخروی زندگی ابدی زندگی ہے اس ناطے انسان اس دنیا میں ہرکام آخرت کوبنانے کے لئے کرے ۔ جب ایسا ہوگا تو زندگی میں آرامش،سکون اور چین ہوگا ہر طرف امن و امان ہوگا ۔